This site is only for information

Wednesday 4 October 2017

مسئلہ قادیانیت اور پاکستانی قانون میں کی جانے والی تازہ تبدیلی 2017

یہ سن 1974ء کی مئی 22 تاریخ کا واقعہ ہے نشتر میریکل کالج ملتان کے طالبعلموں کا ایک گروپ ملتان سے بذریعہ چناب ایکپریس پشاور جا رہا تھا یہ طلبہ سیرو تفریح کی غرض سے جا رہے تھے ۔ انہوں نے ٹرین کی ایک پوری بوگی اپنے لئے مخصوص کروا رکھی تھی ۔ دورانِ سفر ہنستے گاتے جب ان کی ٹرین ربوہ اسٹیشن جسے آجکل چناب نگر کہتے ہیں پہنچی تو قادیانیوں کا ایک گروپ جو اسٹیشن پر موجود تھا ٹرین کے ڈبوں میں داخل ہوئے اور مرزا قادیانی کے متعلق لٹریچڑ جس میں غلام قادیانی کی بکواس لکھی ہوئی تھی ٹرین میں آکر تقسیم کرنا شروع کردیا جب یہ لوگ طلبہ کی بوگی میں کسی مقصد سے پہنچے تو طلبہ میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے ختم نبوت زندہ باد قادیانی مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کردئیے ۔
اس زمانے میں ربوہ پر قادیانیوں کا پورا کنٹرول تھا ربوہ کو بند شہر کہا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں یئاں کسی مسلمان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔ اس شہر کی تاریخ کچھ اسطرح ہے قیام پاکستان کے وقت پنجاب کے گورنر سر فرانسس موڈی کے ساتھ پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے ساز باز کر کے اس علاقے کی 1033 ایکڑ زمین ایک آنہ فی مرلہ کے حساب سے سو سالہ لیز پر حاصل کی تھی 20ستمبر 1948 کو اس شہر کا افتتاح قادیانی خلیفہ مرزا محمود نے کیا تھا ۔ خلیفہ اور اس کے ساتھیوں نے لیز پر لی ہوئی اس زمین کو رہائشی اور کمرشل پلاٹوں میں تقسیم کیا اور اس سے اربوں روپے کما کر اپنی جماعت کو مضبوط کیا قادیانیوں نے یہاں ایک ریاست کے اندر ریاست بنا لی سی آئی ڈی طرز کا ایک خفیہ ادارہ بنایا ۔
اس وقت ربوہ پاکستان کا ایسا شہر تھا جہاں پر کوئی مسلمان اپنا گھر نہیں بنا سکتا تھا ان حالات میں مسلمان طلبہ کی اس نعرہ بازی کو قادیانیوں نے برداشت نہیں کیا انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان مسلمان طلبہ کو ہر صورت میں نعرہ بازی کا سبق سکھایا جائے گا تاکہ آئندہ کوئی مسلمان ان کے ساتھ جھگڑا کرنے کی جرات نہ کر سکے قادیانیوں نے ان طلبہ کے واپس آنے کے پروگرام کے متعلق معلومات حاصل کی چنانچہ سات دن بعد 29مئی 1974 کو وہی طلبہ ٹرین میں سوار واپسی پر ربوہ اسٹیسن پر پہنچے تو ان کے اسقبال کے لئے قادیانی غنڈوں کی ایک بہت بڑی تعداد مسلح ہو کر ریلوے اسٹیشن پرکھڑی تھی قادیانیوں نے ٹرین کو روک کیا اور ان طلبہ کی بوگی پر حملہ کر دیا ۔
بے شمار طلبہ شدید زخمی ہوگئے اس واقعہ پورے پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ملک کے ہر شہر میں شدید ردِعمل ہوا دینی جماعتوں کی اپیل پر عوام گھروں سے باہر نکل آئے ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اگلے ہی روز تمام مقاتر کے علماء کی جانب سے ایک جماعت مجلس عمل تخفظ ختم نبوت کا قیام عمل میں لایا مظاہروں اور شدید دباؤ کے بعد حکومت نے 29 مئی کے واقعے کی تحقیقات کے لئے جسٹس صمدانی کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تاریخی قرارداد پیش کی گئی ۔ بالآخر قومی اسمبلی نے 7 ستمبر 1974 ء کو قادیانی اور مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا ۔ ربوہ کو کھلا شہر قرار دے کر ھر مسلمان کو وہاں آنے جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اور یوں مسلمانوں کی سو سالہ جہدوجہد رنگ لائی ۔
اس کے ساتھ ہی انتخابی طریقہ کار میں تبدیلی کر کے اسے آئین کا حصہ بنایا ۔ اس طریقہکار کے تحت پاکستان کے قادیانی اقلیتی سیٹوں پر الیکشن لڑ سکتے تھے قادیانی اور مسلمان نام اور اسلام کے بنیادی عقائد کے مطابق تقریباً ایک جیسے ہیں اسلئے کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی سے بچنے کے لئے مسلمان امیدواروں سے ایک حلف نامہ لیا جاتا ہے ۔جس پر درج ہوتا ہے میں حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ میں خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہوں اور اس پر قطعی اور غیر مشروط ایمان رکھتا ہوں اور میں کسی ایسے شخص کا پیروکار نہیں ہوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو اور نہ ہی میرا تعلق قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے ہے جو خود کو احمدی کہلواتا ہے امیدوار کو اس بات کا بھی حلفیہ بیان دینا پڑتا ہے کہ وہ اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے ۔ اس طریقہ کار سے قادیانیوں یا کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کی سیٹ پر الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا ۔ہ حلف نامہ بہت اہم ہے اس حلف نامہ کی خلاف ورذی پر منتخب ہونے کے بعد بھی کسی غیر مسلم کو منتخب ہونے کے بعد بھی اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونے پڑسکتے ہیں ۔ یہ حلف نامہ ایک قسم ہے اس قسم کے تحت مسلمانوں کو قادیانیت سے بالکل الگ کردیا جاتا ہے ۔ اسی حلف نامہ کی ایک دوسری شق ہے جس میں آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تحت حلف دینا پڑتا ہے کہ میں نیک پاک اور صادق امین شخص ہوں اگر یہ حلف دینے کے بعد وہ شخص صادق اور امین ثابت نہیں ہوتا بدکار اور پاگل ہوتا ثابت ہو جائے تو پھر وہ اپنی قومی یا صوبائی اسمبلی کی سیٹ سے محروم ہو جاتا ہے ۔
پاکستان کے غیر مسلم جن میں ہندو سکھ عیسائی شامل ہیں خود کو غیر مسلم اقلیت سمجھ کر الیکشن کے اس طریقہ کار کو قبول کر لیا ۔ اور اپنی اقلیتی سیٹوں پر الیکشن میں حصہ لینا شروع کعدیا لیکن قادیانیوں نے اس حلف جو پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا اس لئے انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے اور غیر مسلم ہونے کے طور پر ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم قسم اٹھا کر یہ کہیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں تو آخرت میں ہمارا کیا ہوگا ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وہ اسی صورت میں پاکستان کی سیاست میں حصہ لیں گے جب ان کو یا تو مسلمان قرار دے دیا جائے یا پھر الیکشن میں اس طرح کا حلفی یا قسم نہ لی جائے کہ ہم غیر مسلم ہیں اس حوالے سے وہ مختلف قسم کی سازیشوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ کیونکہ ڈیموکریسی میں اس طرح کا کوئی حلف نامہ داخل نہیں کرنا پڑتا ۔ اس لئے وہ پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں میں آسانی سے ملازمت حاصل کر کیتے ہیں ان میں سے بعض ترقی کرتے ہوئے اہم عہدوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت میں شامل کئی شخصیات کے ساتھ ان کے گہرے مراسم ہیں ۔ اور یہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے حکمرانوں سے اپنی مرضی کے کام کروا لیتے ہیں ۔ قادیانیوں کو تمام تر سازشوں اور غیر ملکی اثر رسوخ کے باوجود اتنی ہمت نہیں ہو سکی کہ وہ خود کو مسلمان قرار دے سکیں یا پھر قادیانی رہتے ہوئے بغیر کسی حلف نامے کے براہراست حکومت میں شامل ہو سکیں ۔
سابق نااہل وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے جھوٹ بولنے پر جب نااہل قرار دیا تو وہ سنجیدگی کے ساتھ آئین کی وفعہ 62 اور 63 کو ختم کربے کے لئے سنجیدہ ہوگیا ۔ جس کے تحت اسے نااہل قرار دیا گیا تھا ۔ لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے صرف ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کے لئے دفعہ 62 اور 63 کے خاتمے کے کئے ساتھ دینے سے انکار کردیا ۔
اس پر مل جل کر فیصلہ کیا گیا کہ انتخابی اصلاحات کے بل میں الفاظ کے ہیر پھیر سے کوئی ایسا چکر چلایا جائے جا کے تحت دفعہ 62 اور 63 موجود تو رہے لیکن اسے غیر مؤثر کردیا جائے تاکہ آئندہ کسی چور لٹیرے اور جھوٹے شخص کو سپریم کورٹ نااہل نہ قرار دے سکے ۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ آئین کی دفعہ 62 63 کو غیر مؤثر کرنے کے لئے جان بوجھ کر الفاظ میں ہیر پھیر کیا گیا لیکن کیا قادیانیوں کو بھی ارادتاً بینیفٹ دیا گیا ہے اگر ایسا ہے تو یہ ایک انتہائی خوفناک بات ہے ۔ قادیانیوں کی یہ سازش ایک خطرے الارم ہے ۔


تحریر
مجنوں


1 comment:

  1. دونوں میں فرق صرف ایک لائن کا ہے۔
    پرانے فارم میں امیدوار ختم نبوت کا اقرار یہ کہہ کر کرتا ہے کہ " میں دیانتداری سے قسم کھاتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔"
    جبکہ نئے فارم سے قسم کھانے والا جملہ نکال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ یہ لکھ دیا گیا ہے کہ " میں اعلان کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ "
    یہ ایک قانونی نکتہ ہے۔ اگر کوئی شخص قسم کھا کر حلف دیتا ہے اور بعد میں جھوٹا ثابت ہوجائے تو وہ سیدھا سیدھا آرٹیکل 62، 63 کے تحت نااہل ہوجاتا ہے۔ جبکہ اگر وہ بغیر قسم کھائے کسی چیز کا صرف " اعلان " کرتا ہے تو یہ محض ایک انتخابی نعرہ بن کر رہ جاتا ہے جس سے مکرنے پر کوئی پکڑ نہیں ہوسکتی اور نہ ہی آرٹیکل 62، 63 کی شقیں عائد ہوسکتی ہیں۔
    یہ باریکی کے کام کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ نوازشریف اور فضل الرحمان ہیں، جی ہاں،
    ختم نبوت ﷺ کا پیرا وہیں موجود ہے، صرف اس کے اقرار کیلئے قسم کھانے کی شق ہٹا دی گئی۔
    مولانا فضل الرحمان المشہور (یہودی سرٹیفکیٹ بانٹنے والے) نے بھی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم قانون ختم کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا
    خیر یہ میری ذاتی رائے ہے

    ReplyDelete

welcome

Total Pageviews

Follow Us

Categories

Popular Posts

Copyrights Reserved @2015. Powered by Blogger.

Followers

Flag counter

Flag Counter

Blog

Pages

This site is only for information

Blog Archive

About Me